سید سبطین شاہ(پی ایچ ڈی)
وارسا (پ۔ر)
پاکستانی ریسرچ سکالر و سینئرصحافی سید سبطین حسین شاہ نے اپنا پی ایچ ڈی پراجیکٹ مکمل کرلیا ہے اور ان کی یونیورسٹی کے متعلقہ کمیشن کی طرف سے انکے لیے ڈاکٹر آف فلاسفی برائے سیاسی علوم و انتظامی امور کا ٹائٹل دینے کی سفارشات کی گئی ہیں جس کی یونیورسٹی کی کونسل فار پولیٹکل سائنس و ایڈمنسٹریشن نے منظوری دے دی۔
تفصیلات کے مطابق، ڈاکٹر سید سبطین حسین شاہ نے گذشتہ پیر کے روز مرکزی یورپ کی یونیورسٹی آف وارسا کی فکلٹی آف علوم سیاسی و بین الاقوامی مطالعات کے قائم کردہ ڈیفنس کمیشن کے سامنے ’’پاکستان میں انتہاپسندی اور اس کے قومی سلامتی پر اثرات‘‘ کے عنوان سے تین سو تیس صفحات پر مشتمل اپنے تحقیقی مقالے کا کامیابی سے دفاع کرکے ڈاکٹر آف فلاسفی برائے سیاسی علوم و انتظامی امور کا ٹائٹل حاصل کرلیا ہے۔ ان کی طرف سے اپنے مقالے کا خلاصہ پیش کیا گیا اور انہوں نے تنقیدی جائزے اور مختلف سوالات کے موثر جوابات دیے۔
یہ پبلک ڈیفنس گذشتہ مارچ میں ہونا تھا لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے ملتوی کردیا گیا تھا اور اب یونیورسٹی کے سربراہ کی منظوری کے ساتھ اس تقریب کو چھ جولائی کو کامیابی سے آن لائن منعقد کیاگیا۔
کمیشن میں یونیورسٹی آف وارسا کے علوم سیاسی و بین الاقوامی تعلقات کے شعبے سے وابستہ آٹھ سینئر پروفیسر شامل تھے اور ان کے علاوہ یونیورسٹی کرواکوو اور یونیورسٹی آف پوزنان کے پروفیسرز نے ڈیفنس کے دوران اس تحقیقی مقالے پر اپنا تنقیدی جائزہ پیش کیا جس کا ڈاکٹر سید سبطین شاہ کی طرف سے موثر جواب دیا گیا۔ پبلک ڈیفنس کے دوران متعلقہ شعبے کے دیگر ماہرین بھی شریک تھے۔
ڈاکٹر سید سبطین شاہ نے ۲۰۱۵ء میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد سے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں ایم فل کرنے کے بعد اسی سال یونیورسٹی آف وارسا میں اپنا پی ایچ ڈی پراجیکٹ شروع کیا اور گذشتہ پانچ سال کی سٹڈیز کے دوران اپنے تحقیقی مقالے کے علاوہ، انہوں نے ممتاز اساتذہ کی نگرانی میں سیاسی علوم، بین الاقوامی تعلقات، تقابلی مطالعات، سوشل سائنسس، پیس اینڈ کنفلکٹ سٹڈیز، خارجہ پالیسی، ایریا سٹڈیز، بین الاقوامی قوانین اور انٹرنیشنل پولیٹیکل اکانومی سمیت متعدد کورسس مکمل کئے اور ان کورسس کے علاوہ انہوں نے پولینڈ اور یورپ کے دیگر ممالک میں متعدد کانفرنسوں کے دوران مختلف موضوعات پر اپنے تحقیقی مقالات پیش کئے۔
گذشتہ پانچ سالوں کے دوران بین الاقوامی تحقیقی جریدوں میں مختلف موضوعات پر ان کے پانچ مقالات شائع ہوچکے ہیں۔پانچ سال کے پی ایچ ڈی پراجیکٹ کے دوران وہ ایک سال ہراسموس پروگرام کے تحت کے۔یو لیون یونیورسٹی آف بلجییم میں بھی تعلیم حاصل کرتے رہے۔
ان کی دلچسپی کے تحقیقی شعبہ جات میں بین الاقوامی تعلقات، نیشنل سیکورٹی، انتہا پسندی اور تشدد پسندی، مذہب، سیاست، پیس اینڈ کنفلکٹ، اسٹراٹجیک اسٹڈیز، انسانی حقوق، ایریا اسٹدیز (جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطی) وغیرہ شامل ہیں۔
ڈاکٹر سید سبطین حسین شاہ پیشے کے لحاظ سے صحافی ہیں اور پی ایچ ڈی اور ایم فل کے علاوہ وہ ماس کمیونیکیشن کے شعبےمیں ایم ایس سی کی ڈگری کے حامل ہیں۔ تین دہائیوں کی صحافتی زندگی کے دوران وہ مختلف قومی و بین الاقوامی اخباری اداروں سے وابستہ رہے ہیں۔ انہوں نے نوے کی دہائی کے اوائل میں ایک رپورٹر کی حیثیت سے صحافتی پیشے کا آغاز کیا اور ابتک اینکرپرسن اور تجزیہ کار تک کے فرائض انجام دیے۔ سید سبطین شاہ اب تک متحدہ عرب امارات، قطر، ناروے، ڈنمارک، سویڈن، بلجیم اور پولینڈ سمیت متعدد ملکوں کا دورہ کرچکے ہیں اور وہ مختلف زبانوں پر دسترس رکھتے ہیں جن میں اردو اور انگریزی کے علاوہ فارسی، پنجابی، ہندکو، پشتو اور نارویجن بھی شامل ہے۔ کچھ حد تک پولش زبان سے بھی ان کی واقفیت ہے۔ ان کی مادری زبان ہندکو ہے اور ان کا تعلق ضلع مانسہرہ کے علاقے پیراں (پیراں۔خیرآباد) کے ایک سادات گھرانے (نمبردار فیملی) سے ہے۔
اپنی صحافتی و سماجی خدمات کے لیے وہ پاکستان یونین ناروے، اسلام آباد راولپنڈی ویلفیئر سوسائٹی ناروے، حلقہ ارباب ذوق لیوٹن برطانیہ، خلج فاؤنڈیشن مانچسٹر برطانیہ اور دیگر متعدد تنظیموں اور اداروں کی طرف سے ایوارڈز اور اعزازی اسناد حاصل کرچکے ہیں۔
پی ایچ ڈی پراجیکٹ مکمل کرنے کے بعد سید سبطین شاہ نے اپنے ایک بیان میں اپنی اس کامیابی کو اللہ تعالیٰ کا کرم، اپنے والد و والدہ اور خاندان کے دیگر افراد اور دوستوں و عزیزوں کی دعاوؤں اور بہترین اساتذہ بشمول اپنے سپروائزر پروفیسر ڈاکٹر آدم شمنسکی کی درست رہنمائی اور محنت کا صلہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ وہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے اپنے اساتذہ بشمول سابق سربراہ شعبہ بین الاقوامی تعلقات پروفیسر ڈاکٹر محمد خان (موجودہ پروفیسر بین الاقوامی تعلقات انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد)، موجودہ ڈین فکلٹی آف کنٹمپوریری اسٹڈیز پروفیسر ڈاکٹر لبنی عابد علی اور پروفیسر ڈاکٹر شاہین اختر کے بھی شکرگزار ہیں جنہوں نے ابتدائی طور پر ایم فل کے دوران درست رہنمائی کی۔
انہوں نے خاص طور پر کہاکہ وہ اس کامیابی کا سب سے زیادہ کریڈٹ اپنے والد محترم مرحوم سید امداد حسین شاہ کو دیتے ہیں جن کی خواہش تھی کہ ان کی اولاد اور انکے بھائیوں اور دیگر عزیزو اقارب اور گاؤں کے دیگر اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ سید سبطین شاہ کے خاندان میں وہ دوسری شخصیت ہیں جو پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس سے پہلے ان کے بھائی علامہ ڈاکٹر سید زوار حسین شاہ اسلامی علوم میں ڈاکٹریٹ کرچکے ہیں اور آج کل ناروے میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
سید سبطین شاہ نے اس پی ایچ ڈی پراجیکٹ کو اپنے علاقے اور پاکستان کے دیگر پس ماندہ علاقوں کے ان لوگوں کے لیے منسوب کیا جو تعلیم کے فروغ کے کوشاں ہیں۔ اپنے بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں اور تعلیم کے حوالے سے دیگر لوگوں کی بھی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔
سید سبطین شاہ نےاپنی والدہ محترمہ، اہلیہ، بچوں، اپنے خاندان، اپنے گاؤں اور پاکستان میں رہنے والے دیگر عزیز و اقارب و دوستوں اور ناروے، بلجیم اور برطانیہ، امارات و سعودی عرب سمیت مختلف ممالک میں مقیم دوستوں اور عزیزوں کا بھی شکریہ ادا کیا جو ہمیشہ ان کے اس پی ایچ ڈی پراجیکٹ کے حوالے سے حوصلہ افزائی اور دعائیں کرتے رہے۔ انہوں نے خاص طور پر بلجیم میں مقیم ممتاز سماجی و کاروباری شخصیت چیئرمین کشمیرکونسل ای یو علی رضا سید، انکے کزن سید ناصر شاہ، جیو بلجیم کے بیوروچیف خالد حمید فاروقی، بلجیم پریس کلب کے صدر چوہدری عمران ثاقب، جنرل سیکرٹری اے آئی وائی کے نمائندہ ندیم بٹ، ممتاز کشمیری رہنما میر شاہجہاں، چوہدری خالد جوشی، دانشور چوہدری امداد علی ملھی، سماجی شخصیت سید اظہر ہمدانی، ناروے میں مقیم اپنے بھائی علامہ ڈاکٹر سید زوار حسین شاہ، کزن سید محسن رضا، پاکستان یونین ناروے کے چیئرمین چوہدری قمراقبال اور سیکرٹری اطلاعات ملک محمد پرویز، سماجی شخصیت چوہدری اصغر دھکڑ، ڈاکٹر جمیل طلعت، کشمیرسکینڈے نیوین کونسل کے چیئرمین سردار علی شاہنوازخان اور کشمیریورپیئن الائنس کے صدر سردار محمد پرویز، پی پی پی کے صدر چوہدری جہانگیر نواز گلیانی، سابق صدر چوہدری زمان، سینئر رہنما میاں محمد اسلام اور سینئرنائب صدر علی اصغر شاہد، اسلام آباد راولپنڈی ویلفیئر سوسائٹی کے سابق صدور مرزا انوربیگ، جاوید اقبال، ریاض احمد اور حاجی سعید، موجودہ صدر خالد اسحاق، جنرل سیکرٹری راشد اعوان، سماجی شخصیت راجہ غالب حسین دھنیال، ممتاز کاروباری شخصیات سید ذوالفقار شاہ (ذولفی شاہ) اور راجہ ناصر حسین، سماجی و کاروباری شخصیت چوہدری جاوید اقبال دھنی، کاروباری و سماجی شخصیت سید ابرار حسین شاہ، انجمن حسینی کے صدر راجہ جاوید اقبال، سابق صدر سید ہمایوں ارشد، سماجی شخصیت حاجی ارشد حسین، دینی و سماجی شخصیت سید حسین موسوی، سماجی شخصیت چوہدری محمد حسین (مہمند چک)، مشہور نعت خواں عبدالمنان، انجینئر مدثر اقبال (آف لالہ موسی)، قیادت ٹی وی کے چیئرمین چوہدری شریف گوندل، کاروباری شخصیت رانا اکرم، دانشور و سماجی شخصیت طاہرخان، سابق ڈپٹی سپیکرنارویجن پارلیمنٹ اختر چوہدری، سابق ڈپٹی میئر دریمن سید یوسف گیلانی، نارویجن ٹی وی ٹو کے صحافی قذافی زمان، سینئرصحافی چوہدری ارشد وحید، سینئرصحافی میاں صفدر، سابق ایڈیٹر پیام مشرق راجہ منصور احمد، نورپاک میڈیا کے عامر لطیف، کاروباری شخصیت نورداد خان، بزرگ سماجی شخصیت نذیرخالد بٹ، متحرک سماجی شخصیت طیب منیر چوہدری، ممتاز صحافی عقیل قادر، رکن اوسلو سٹی پارلیمنٹ ڈاکٹر مبشر بنارس، پاک۔ناروے فورم کے چیف آرگنائزر چوہدری اسماعیل سرور، بابائے موس حاجی افضل خان، ایڈوکیٹ احسن رشید، ایڈوکیٹ سید جاوید شاہ، سماجی شخصیت بابر بٹ، سینئر سٹیزن سنٹر کے چوہدری زاہد نذیر اور قیصر سعید، ہیومن سروس ناروے کے چیئرمین چوہدری غلام سرور، شاعر و آرٹسٹ سید انور کاظمی، سماجی شخصیات چوہدری عجب خان، چوہدری مظہرحسین، سماجی شخصیت چوہدری حنیف عارف اور پولینڈ سید فرخ عباس شاہ، ڈاکٹر کامران خان، ہالینڈ میں ڈاکٹر محمد کامران، محمد منصور عالم، انگلینڈ لوٹن کی ممتاز سیاسی و سماجی شخصیت سید حسین شہید سرور ، مانچسٹر میں مقیم صحافی و ادیب سید احمد نظامی، ایتھنز یونان سے اینکر و صحافی ساحل جعفری اور دیگر دوستوں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اس پراجیکٹ کے دوران ہمت افزائی کی۔ اس موقع پر دو اہم شخصیات کا تذکرہ بھی ضروری ہے جو اب اس دنیا میں نہیں رہے، یعنی پی پی پی ناروے کے سابق جنرل سیکرٹری مرزا محمد ذوالفقار اور خطہ پٹھوہار کے ممتاز شاعر و ادیب سید آل عمران جنہوں نے ہمیشہ محبت و خلوص کا اظہار کیا۔ بیان میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ ان کے علاوہ بہت ایسی شخصیات ہیں جن کے نام تذکرہ نہیں ہوسکا، لہذا ان سے معذرت خواہ ہیں۔